سیاستدانوں، بیوروکریٹس نے بہت جیبیں بھرلیں،،ملکی معیشت کے استحکام کے لئے سڑکوں پر آنا ہوگا :مرکزی تنظیم تاجران پاکستان
ملتان(صفدربخاری) مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے مرکزی چیئرمین خواجہ سلیمان صدیقی، جنوبی پنجاب کے چیئرمین جاوید اختر خان، جنوبی پنجاب کے صدر شیخ جاوید اختر، ملتان کے صدر خالد محمود قریشی، ملتان کے جنرل سیکرٹری مرزا نعیم بیگ،اردو بازار بوہر گیٹ کے صدر چوہدری ریا ض شاہین، جنرل سیکرٹری چوہدری صغیر،شریف پلازہ کچہری روڈ کے نائب صدر خواجہ انیس الرحمن نے کہا ہے کہ سیاستدانوں، بیوروکریٹس نے بہت جیبیں بھرلیں اب ملک کا سوچیں معاشی بدحالی کی وجہ سے بے یقینی کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے کہ کل کیاہوگا تجارتی و صنعتی کاروبار زندگی جام ہو چکے ہیں تاجر برادری کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ملک اس ڈگر پر پہنچ گیا ہے کہ اب اس کی واپسی ناممکن نظر آتی ہے سیاستدان ووٹ بھی مانگتے ہیں نوٹ بھی مگر اقتدار کے ایوانوں میں جاکر وہ ملک وقوم کی بھلائی کا کچھ نہیں سوچتے بلوچستان میں آج بھی سیلاب زدگان دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں غربت اور مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے جبکہ تاجر سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے ملکی معیشت بھنور میں پھنس چکی ہے اور ہچکولے کھاتی نظر آرہی ہے مہنگائی کے طوفان میں پسی ہوئی قوم میں قوت خرید ختم ہو چکی ہے رہی سہی کسر بند ہوتی صنعتوں نے پوری کردی ہے جس کی وجہ سے بے روزگاری کا سونامی آجائے گا حکومت اور اپوزیشن ملک کے معاشی حالات کو بہتر کرنے میں سنجیدہ ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں اقتدار کی بندر بانٹ میں ایوانوں میں بیٹھے حکمران عوام کو یکسر بھول چکے ہیں ڈالر ناپید ہو چکا ہے یہی و جہ ہے کہ بندر گاہوں پرآلو، پیار، لہسن اور دیگر اشیائے ضروریہ کے ہزاروں کنٹینرز موجود ہیں لیکن ڈالر موجود نہیں ہیں کہ جس کو کلیئر کرایا جاسکے ٹیوٹا، ہنڈا کی پروڈکشن بند ہو چکی ہے صرف فیصل آباد میں صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے بیس لاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہوں گے خدانخواستہ ملک بھر میں صنعتیں بند ہو گئیں تو کیا حالات ہوں گے ملک بھر میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ معیشت کے پہیے کو چلانے کے لئے مقتدر حلقوں، عدلیہ، اسٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا تب ہی معاشی حالت بہتر ہو گی اور ایسا معاشی چارٹر ڈآف اکانومی تیار کیا جائے کہ جس کی وجہ سے حکومتیں اس کی پابند رہیں سود کی وجہ سے اکانومی مضبوط نہیں ہو رہی اسی لئے بھاری بھرکم قرضوں سے جان چھڑانے کے لئے سودی نظام کو ختم کیا جائے تاکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے جان چھڑائی جائے کیونکہ جو بھی اقتدار میں آتا ہے محلات کھڑے ہو جاتے ہیں جائیدادیں بن جاتی ہیں بنک بیلنس میں اضافہ اور بزنس بڑھ جاتا ہے لیکن ملک وقوم کی بھلائی کے لئے کوئی سنجیدگی سے نہیں سوچتا حکمرانوں سے بارہا مزاکرات کئے لیکن مزاکرات بے سود ثابت ہوئے کوئی جماعت عوام کو نہیں دیکھ رہی سب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں آخر یہی راستہ نظر آیا ہے کہ ملک کو بچانے اور ملکی معیشت کے استحکام کے لئے سڑکوں پر آیا جائے جس کے لئے بہت جلدآئندہ کی حکمت عملی کا اعلان کیاجائے گا۔