“اخلاقیات سے عاری نسل نو “

تحریر :سائرہ ارم

کسی بھی معاشرے کی پہچان، اس میں رہنے والے افراد کا وہ رویہ اور طرزِعمل ہوتا ہے، جس میں اعتدال و توازن ، انسانی ہمدردی ، انسانی حقوق کا احترام پایا جائے…جس معاشرے میں اخلاقیات پستہ حال ہو جائے اور ایک بوسیدہ خیال لگے اس معاشرے کو زوال سے اور تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا
کہا جاتا ہے کہ اگرعلم عام ہوجائے ،لوگ زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ ہوجائیں تو  سماجی زندگی بہتر ہو جاتی مگریہ بات حقیقت سے پرے معلوم ہوتی ہے اس دورمیں علم پہلے کے مقابلہ میں زیادہ عام ہے تعلیم کا گراف بڑھ رہاہے مگر اخلاق و کردار کا گراف نیچے جارہاہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہاں اخلاقی تعلیم پرکم مادہ پرستی اور مادی تعلیم پر زیادہ زور دیاجارہاہے گویا تعلیمی مراکز انسانوں کو مشین بنانے کی فیکٹریاں بنتی جا رہی ہیں ،جہاں انسانی جذبات نہیں ہوتے بلکہ مادیت اور ان میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے گرسکھائے جاتے ہیں لیکن اخلاقیات پر توجہ نہیں دی جاتی.
اخلاق کسی بھی قوم کی زندگی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، خواہ انسان کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اخلاق دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی اصل شئے اخلاق ہے خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے یہ منظر آپ اِس وقت دنیا میں اپنے شرق و غرب میں نظر دوڑا کر دیکھ سکتے ہیں کہ عروج و ترقی کہاں ہے اور ذلت و رسوائی کہاں ہے؟
اخلاقی اقدار کی موجودگی ہی کسی معاشرے کو مہذب بناتی ہے اخلاقیات سے وابستگی رکھنے والی قومیں ہی تاریخ کے اوراق میں اپنی جگہ بنا پاتی ہیں اور آئندہ آنے والی نسلیں ان کے راستے پر عمل کر کے کامیاب زندگی گزارتی ہیں اخلاقیات کی وجہ سے ہی معاشرتی ڈھانچہ اپنا وجود برقرار رکھتا ہے جس سے تہذیب نشوونما پاتی ہے
وہ بھی کتنا اچھا وقت تھا جب لوگ بہترین اخلاق واطوار سے پہچانے جاتے تھا، ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کا دستِ بازو بن جاتے تھے کم پڑھا لکھا آدمی بھی جانتا تھا کہ مہذب اور شائستہ رویے کا مظاہرہ کیسےکرنا ہے لیکن رفتہ رفتہ جو تہذیبی روایات ختم ہوتی گئی اب دور دور تک دکھائی نہیں دیتیں ،مسلمان جب تک اخلاقی اقدار کے حامل رہے انکی پوری دنیا پر بالادستی رہی جیسے ہی اخلاقی بحران کا شکار ہوئے زوال پذیر ہو گئے
انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بدن اخلاقی پستی کی طرف جا رہا ہے اور ہماری نوجوان نسل اخلاقیات سے عاری ہوتی جا رہی ہے معاملہ عبادات کا ہو یا معاملات کا، حقوق و فرائض ہوں یا تعلیم و تربیت، امانت، دیانت، صدق، عدل ،ایفاے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کا نسل نو میں فقدان دکھائی دیتا ہے
گزشتہ دنوں لاہور کے پوش علاقے میں واقع نجی سکول میں طالبات کا ساتھی طالبہ پر تشدد کرتے ہوئے ویڈیو وائرل ہوئی جس کے بعد اس تشدد کے پیچھے جو وجہ سامنے آئی وہ خطرے کی گھنٹی ہے، بتایا گیا کہ چونکہ طالبہ نے اپنی ساتھی طالبات کی نشہ کرتے ہوئے ویڈیو ان کے والدین کو بھیجی تھی لہذا اس طالبہ کو بدلے کے طور پر مارا پیٹا گیا یہ واقعہ اتنا افسوسناک اور شرمناک ہے کہ مذمت کے لیے الفاظ بھی کم پڑ جاتے ہیں
یوں کہنا درست ہوگا کہ علم کے تشخص کو جتنا پرائیوٹ سیکٹرز نے نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی نے نہیں پہنچایا سرکاری سکول تو پہلے ہی اپنی آہ و زاری بیان کرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ والدین اچھی تعلیم کے لیے بچوں کو مہنگے پرائیوٹ سکولوں میں داخلہ کروانے پر مجبور ہو گئے ان ہی انٹرنیشنل پرائیوٹ اداروں نے تعلیم کو کمرشلائز کر دیا ان اداروں کو معیار تعلیم اور اخلاقیات و آداب سے زیادہ فیسوں اور آمدنی سے لگاؤ رہا نتیجہ ان جیسے واقعات کی صورت میں اب ہمارے سامنے ہے
اس کے علاوہ اخلاقی پستی اور زوال کی ایک وجہ ہمارے تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت کی عدم موجودگی ہے تعلیم یافتہ نوجوان اخلاقی تربیت سے بالکل عاری ہے، محض نوکری کا حصول ان کا مقصد حیات نظر آتا ہے، جس کے لیے وہ تمام اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال دیتےہیں لیکن اُن کو مکمل ذمہ دار قرار دینا بھی درست نہیں، کیوں کہ اگر والدین بچپن سے ہی اولاد کو اخلاقیات کی تربیت دیں اور انہیں برے لوگوں کی صحبت سےدور رکھیں تو ان کے بگڑنے کے امکانات شاذو نادر ہی ہو جائیں گے یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکا ہے
معاشرے کے لوگ اخلاقیات کے معاملے میں اس حد تک گر چکے ہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے نظر آتی ہے، جیل خانہ جات میں جگہ تنگ پڑرہی ہے، گلی گلی، محلہ محلہ ، جگہ جگہ لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ، ظلم و زیادتی، فساد، کینہ ، حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی عام ہے منشیا ت کے بازار، ہوس کے اڈے ، شراب خانے ، جوا ، چوری، ڈاکہ زنی، قتل وغارت ، زنا کاری، رشوت خوری، سود و حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی، جھوٹ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، طمع، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی خود غرضی اور بد عنوانی و کرپشن
یہ سب بیماریاں ہمارے معاشرے میں عام ہوتی جا رہی ہیں دھوکہ دہی اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی قسم ہے جو ہمارے یہاں موجود نہ ہو ؟ تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہر ہیں جو ہمارے معاشرے میں دیکھنے کو نہ ملے ہوں ؟
یہ حالات معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہیں اگر ان حالات پر قابو نہ پایا گیا تو صورتحال مزید تشویشناک ہوجائے گی کیونکہ اخلاقیات ہی انسان کو جانوروں سے الگ کرتی ہیں اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائے گی
نسل نو میں اخلاقیات کی کمی ہونے کی بڑی وجہ ٹیکنالوجی کا بے دریغ، غلط اور غیر ضروری استعمال ہے ٹیکنالوجی کا غلط استعمال رشتوں کی بربادی کا باعث بن رہا ہے اور ہمارا معاشرتی ڈھانچہ بتدریج تباہی کا شکار ہوتا جا رہا ہے
اگر سنجیدگی سے اس معاملے کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے کچھ اقدامات اٹھائے جائیں تو ہم دوبارہ اخلاقی سطح تک پہنچ سکتے ہیں ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے ، تعلیمی اداروں میں اخلاقی تربیت پر بھرپور توجہ دی جائے
اور عوام میں آگاہی پھیلائی جائے اور اگر ایسا ہو گیا تو انسان ایک بار پھر انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو سکتا ہے والدین پر لازم ہے کہ وہ بچوں کواچھی تعلیم دلوانے کے ساتھ اچھا انسان بنانے پر بھی توجہ دیں
اساتذہ ہوں یا دوست احباب، اہل فکر ہوں یا اہل قلم ہر انسان کو چاہیے کہ اس کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا حق ادا کرے تاکہ سب کو اخلاقیات و آداب سے مکمل آگاہی حاصل ہو سکے