مجھے درپیش مسائل
bbc news urdu نے Friday، 10 November 2023 کو شائع کیا.
مجھے درپیش مسائل
تحریر : سحرش رمضان تھہیم

ہماری اکثریت جن میں اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں ورکنگ وومن کو وہ عزت نہیں دیتے جس کی وہ مستحق ہیں اور قدم قدم پر انھیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو افسوسناک ہے۔ ورکنگ وومن کے بارے میں ہمیں کم ظرفی پر مبنی اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر ایسی خواتین جو ناگزیر معاشی پریشانیوں کے سبب اپنے گھرانوں کی کفالت کے لئے کام کرتی ہیں ہمیں ان کا احترام و عزت اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ لیکن صد افسوس عورت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
جنوبی پنجاب کی پہلی خاتون گورنمنٹ کنٹریکٹر ہوں۔
میں سحرش رمضان تھہیم جو کنسٹرکشن کے شعبہ سے منسلک ہوں جو کہ میرا مرکزی بزنس ہے علاوہ ازیں اور بھی بزنس کر رہی ہوں لیکن میں سو لوگوں کے ساتھ کام کررہی ہوں تو اس میں صرف چند لوگ ایسے ہیں جن کی وجہ سے میں اپنے پاؤں پر مضبوط کھڑی ہوں ورنہ بیشمار لوگ تو میرے پاؤں کی زمین کھینچنے میں مشغول ہیں۔
جہاں بحیثیت عورت چند لوگ کام میں میری حیثیت قبول کرتے ہیں تو وہاں سینکڑوں میری حیثیت سے انکاری ہیں۔ وہ میرے ہر کام کو سونے کے ترازو میں تول کر بھی ناخوش ہیں جبکہ انکا اپنا معیار چند سو روپوں پر بِک جانا ہے۔
ایک پرانی کہاوت ہے! بہتے دریا میں سے چڑیا چونچ بھر جائے تو دریا کو کیا فرق پڑتا ہے۔
لیکن صد افسوس کے ساتھ یہاں بیشمار لوگ دریا کا کردار نہیں بلکہ کیچڑ سے بھرے تالاب کا کردار ادا کررہے ہیں جو ہر پاس سے گزرنے والے پر اپنا کیچڑ ہی اچھالیں گے۔
اگر ہم عورتیں کمانے کے لئے نکلتی ہیں تو ہم یہ سوچ کر نہیں نکلتی کہ ہم مردوں کے مساوی حقوق چاہئے۔ ہم اپنا کام بہتر کرنے کے لئے نکلتی ہیں کہ ہمیں قبول کیا جائے شانہ بشانہ تاکہ آج جو سحرش صنف آہن ہے اپنی صنف نازک کے لئے جو رول ماڈل ہے اپنی صنف نازک کے لئے اسے یہ نا کہنا پڑے
میرا ذکر پڑھنے والے میرا راستہ نا چن لیں
سرورق یہ بھی لکھنا مجھے مات ہو گئی تھی۔
میں کہنا چاہتی ہوں کہ سو میں سے چند افراد ہیں جن کی وجہ سے ہم عورتیں شاید اپنے کام کررہی ہیں ورنہ جتنی حوصلہ شکنی کا دور چل رہا ہے دل تو میرا بھی یہ ہے کہ چھوڑ دوں اس معاشرے کے گھٹن زدہ ماحول کوجو میری حیثیت قبول کرنے سے انکاری ہے
ٹیگز:-