یومِ مزدور اور ہماری ہمدردیاں

سال تو سارا ہی گمنامی میں کٹ جاتا ہے
بس ” یکم مئی ” کو لگتا ہے کہ مزدور ہوں میں

تحریر : کا ئنات کرن

دنیا بھر میں الگ الگ تاریخوں کو الگ الگ چیزوں کیساتھ منسوب کرکے کچھ خاص ایام منائے جاتے ہیں کبھی فادرز ڈے تو کبھی مدرز ڈے اسی طرح کبھی ویمن ڈے تو کبھی ڈاٹرز ڈے – آجکی تاریخ ” یکم مئی ” کو بھی کئی ممالک میں ” مزدور ڈے ” یا ” لیبر ڈے ” کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد مزدوروں کیساتھ اظہار یکجہتی اور انکی حوصلہ افزائی ہے دنیا بھر میں آج کے دن مختلف پروگرامز ‘ سیمینار اور اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں جن میں مزدوروں کے استحصال اور انکے حقوق پر بحث کی جاتی ہے مختلف این جی اوز کی طرف سے ریلیاں نکالی جاتی ہیں جس میں چارٹس وغیرہ پر مزدوروں کے مسائل ‘ انکے حقوق کے متعلق تحریروں کی نمود و نمائش اور فوٹو گرافی کی جاتی ہے بڑے بڑے عہدیداران اسٹیج پر آکر اچھے اچھے خیالات پر مبنی تقاریر کرتے ہیں’ اپنے مثبت خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں – عالمی سطح پر تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے اور لوگ گھروں میں آرام کرتے ہیں – سوشل میڈیا پر ” لیبر ڈے ” کے حوالے سے مختلف تصاویر ‘ اشعار ‘ تقاریر’ تحریریں اور پوسٹس نظر آتی ہیں اور شام کو سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں بس یہی ہے مزدوروں کا عالمی دن اور ان سے اظہار یکجہتی – لیکن آجکے دن جو لوگ کام پر جاتے ہیں وہ صرف اور صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جنکا دن منایا جارہا ہوتا ہے لوگوں کو فوٹو گرافی سے مطلب ہے اور انہیں اپنی اجرت سے تاریخ کو دہرایا جائے تو یہ دن ہمیں شکاگو کے شہداء اور امریکی حکومت کی جانب سے کئے گئے تشدد اور ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کی یاد دلاتا ہے یکم مئی 1886 میں شکاگو کی تمام فیکٹریاں بند کردی گئیں اور تقریباً چار لاکھ مزدوروں نے اپنے حق کے لیے آواز بلند کی کہا جاتا ہے کہ وہ ہڑتال اس قدر کامیاب ہوئی کہ اس دن ایک بھی چمنی سے دھواں اٹھتا دکھائی نہیں دیا
اس ہڑتال میں کئی مزدوروں کی جانیں گئیں انکے کچھ مطالبات تھے جس میں انکے محنت کا معاوضہ ‘اورمزدوری کے اوقات کم کرنے پر آواز اٹھائی گئی تھی لیکن پولیس کی مدد سے ان پر فائرنگ کی گئی انہیں منتشر کیا گیا اور اس دوران ایک بم دھماکہ بھی ہوا وہ دھماکہ کس نے نصب کیا اس کا آج تک پتا نہیں چل سکا لیکن اسکا جانی نقصان ضرور ہوا – اسطرح مزدوروں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے کئی مظاہرے کیے کیونکہ انکو ہفتے میں 12 گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا اور خاص کر بچوں کو مزدوری کم اجرت دی جاتی تھی انکا استحصال کیا جاتا تھا –

اور اسطرح انکے جائز مطالبات پر آواز اٹھانے ‘ اور انکی جانی قربانیوں پر اظہار یکجہتی کے لیے ” مزدوروں کا عالمی دن ” منایا جاتا ہے
لیکن وقت کیساتھ ساتھ اس دن کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے آجکے دن چھٹی کا اعلان کردینا ‘ مختلف پروگرامز کرنا یا ریلیاں نکالنا کہاں کی ہمدردی ہوئی ؟؟ مزدور طبقہ تو آج بھی اپنے اپنے کاموں پر مصروف ہے انہیں آجکے دن کا علم ہی نہیں ہوتا – اگر ہم غور کریں تو مزدور آج بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے آج کے دور میں مزدور طبقے کی جو عزت اور اجرت ہونی چاہیے وہ نہیں انہیں نہیں مل رہی – دیگر ممالک میں مزدور صرف 8 گھنٹے کام کرتا ہے جبکہ ہمارے ملک میں مزدور کو اپنی غربت کے پیشِ نظر اوور ٹائم کام کرنا پڑتا ہے ساتھ میں کام کروانے والوں کے سخت اور بیہیمانہ رویے الگ سے برداشت کرنے پڑتے ہیں اور کام کرنے کے بعد بھی اجرت کی ادائیگی میں جھگ جھگ بھی برداشت کرنا پڑتی ہے – اس معاملے میں آئین پاکستان نے کوئی قانون یا کوئی دستور نہیں بنایا ہے-

بعض ممالک میں گرمیوں کے دنوں میں کنسٹرکشن کا کام روک دیا جاتا ہے جس سے انکے دلوں میں مزدور طبقے کیساتھ ہمدردی کا جذبہ نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی ترقیوں کی راہوں پر گامزن ہیں – لیکن اس معاملے میں ہم بہت بے حس لوگ ہیں ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ مزدور طبقہ بھی ہماری طرح انسان ہے ہمیں انکے جذبات کی قدر کرنی چاہیے – آج کل گرمی کے دنوں میں جب کوئی بھی انسان ایک منٹ بھی دھوپ میں رکنا برداشت نہیں کرتا وہ لوگ گھنٹوں گھنٹوں کھلے آسمان تلے سخت دھوپ میں اپنے کام سر انجام دیتے ہیں اور اف تک نہیں کرتے اس کے باوجود بھی انہیں انکے خون پسینے کی کمائی کی بروقت ادائیگی نہ کی جائے تو یہ کہاں کا انصاف ہوا؟؟؟ کہاں کی ہمدردی ہوئی ؟؟؟
ہم اگر چہ مزدوروں کے لیے کچھ کر نہیں سکتے لیکن ہم انکے لیے اپنے دلوں میں نرم گوشہ تو رکھ سکتے ہیں انکی عزت تو کر سکتے ہیں محنت کش طبقے کی قدر تو کر سکتے ہیں انہیں انکے خون پسینے کی کمائی بروقت ادا کر سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی ضروریات زندگی پوری کرسکیں –

ملک کی بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جہاں مزدور طبقے کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے وہیں مڈل کلاس گھرانے بھی مہنگائی سے بے حد پریشان ہیں میں حکومتِ پاکستان سے اپیل کرتی ہوں کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی روک تھام کیلئے مثبت اقدامات کریں تاکہ لوگ مفلسی کے پیشِ نظر خود کشی کرنے پر مجبور نہ ہوں –

اور خصوصاً آجکے دن ‘ میں ‘ مزدور طبقے کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس خاندان کے ہر خود کفیل مرد اور عورت کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہوں جو صبح سویرے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور اپنے دفاتر ‘ اور تعلیمی اداروں میں ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں تاکہ اپنے خاندان کی کفالت کرسکیں انکے لیے ضروریات زندگی کو پورا کرسکیں اور انکے لیے دل سے دعا کرتی ہوں کہ اللہ پاک انکے رزق میں برکت اور کشادگی عطا فرمائے آمین –