تحریر : حاجی فضل حسین چانڈیہ    بذریعہ مسیح اللہ جام پوری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فالج اور اس کا اٹیک

ڈاکٹر قیصر شیرازی راولپنڈی کے سرکاری اسپتال میں کام کرتے ہیں‘ یہ جمعرات 16 دسمبر کو ڈیوٹی پر تھے‘ ان کے ایک کولیگ ڈاکٹر ملک نعیم ان سے ملاقات کے لیے آئے‘ ڈاکٹر نعیم نے انھیں ایک بج کر 20 منٹ پر فون کیا‘ ڈاکٹر شیرازی نے انھیں آفس میں انتظار کا کہا اور یہ وارڈ سے آفس کی طرف چل پڑے‘ ٹھیک چار منٹ بعد ڈاکٹر شیرازی کو نرس کا فون آگیا۔
نرس نے بتایا ’’سر ڈاکٹر نعیم فرش پر گر گئے ہیں‘‘ یہ دوڑ کر پہنچے‘ ڈاکٹر ملک نعیم نیم بے ہوشی کے عالم میں گرے پڑے تھے‘ ڈاکٹر شیرازی نے معائنہ کیا‘ پتا چلا ڈاکٹر نعیم کو فالج کا اٹیک ہوچکا ہے اور ان کے جسم کی بائیں سائیڈ کام نہیں کر رہی‘ ڈاکٹر شیرازی نے فوراً ایمبولینس بلائی‘ ڈاکٹر نعیم کو اٹھا کر ایمبولینس میں رکھا اور راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرف دوڑ پڑے‘ ان کے کولیگز انھیں روکتے رہ گئے۔
ان کا کہنا تھا ’’یہ فالج کا اٹیک ہے مگر آپ انھیں دل کے اسپتال لے جا رہے ہیں‘‘ لیکن ڈاکٹر شیرازی نے کسی کے مشورے پر توجہ نہ دی اور یہ دس منٹ میں ڈاکٹر نعیم کو لے کر آرآئی سی پہنچ گئے‘ سی ٹی سکین ہوا‘ اگلے دس منٹ میں ڈاکٹر نعیم کو انجیکشن لگا دیا گیا اوریہ ایک گھنٹے بعد بالکل صحت مند تھے‘ فالج انھیں چھو کر نکل گیا تھا‘ ڈاکٹر نعیم دو دن مزید اسپتال میں رہ کر گھر چلے جائیں گئے اور یہ عام نارمل زندگی گزاریں گے۔
ڈاکٹر قیصر شیرازی نے اس واقعے کے بعد ایک دوست کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا اور حکم دیا‘ آپ پلیز لوگوں کو فالج کے بارے میں بتائیں‘ ہمارے ملک میں ہر سال ہزاروں لاکھوں لوگ فالج کی وجہ سے معذور ہو جاتے ہیں‘ آپ کا ایک کالم ان لوگوں کی جان بچا سکتا ہے‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا‘ موٹاپے‘ شوگر‘ بلڈ پریشر‘ کولیسٹرول اور تمباکونوشی کی وجہ سے ہمارے خون میں کلاٹ بن جاتے ہیں‘ یہ کلاٹ اچانک کسی وقت ہمارے دماغ کی کوئی نس بند کر دیتے ہیں اور یوں ہمارے جسم کا دایاں یا بایاں حصہ مفلوج ہو جاتا ہے۔
میڈیکل سائنس میں اس حملے کو فالج کہتے ہیں اور یہ چند سکینڈز میں کسی بھی شخص کو ہو سکتا ہے اور وہ شخص باقی زندگی بستر تک محدود ہو جاتا ہے‘ وہ کھانے اور واش روم کے لیے بھی دوسروں کا محتاج ہوتا ہے‘ دنیا میں چند سال پہلے تک فالج کا کوئی علاج نہیں تھا لیکن پھر میڈیکل سائنس نے فالج کا علاج دریافت کر لیا‘ اب ایک انجیکشن آ چکا ہے‘مریض کو اگریہ انجیکشن فالج کے حملے کے دو گھنٹے کے اندر لگا دیا جائے تو اس کے دماغ کا کلاٹ ختم ہو جاتا ہے اور وہ دوبارہ نارمل زندگی گزارنے کے قابل بن جاتا ہے لیکن یہ انجیکشن فالج کے فوراً بعد لگوانا ضروری ہے‘ مریض پر جوں ہی فالج کا حملہ ہو آپ اسے فوراً اٹھائیں اور سیدھا اسپتال لے جائیں۔
ڈاکٹرز اس کا سی ٹی سکین کریں گے اگر دماغ کی نس نہیں پھٹی تو اسے انجیکشن لگایا جائے گا اور مریض چند گھنٹوں میں صحت یاب ہو جائے گا لیکن اگر مریض کو دو اڑھائی گھنٹوں میں یہ انجیکشن نہیں لگایا جاتا تو وہ بے چارہ پوری زندگی کے لیے معذور ہو جائے گا‘ میں اس انجیکشن کے بارے میں جانتا تھا لہٰذا میں نے ڈاکٹر نعیم کو اٹھایا اور سیدھا آر آئی سی لے گیا اور یوں ان کی زندگی اور جسم دونوں بچ گئے‘ میں نے ڈاکٹر شیرازی سے پوچھا‘ کیا یہ انجیکشن ہر اسپتال میں دستیاب ہے؟ ان کا جواب تھا ’’نہیں‘ یہ پورا ٹریٹمنٹ ہوتا ہے اور یہ صرف چند بڑے اسپتالوں میں ممکن ہے۔
اسلام آباد میں یہ شفاء اسپتال اور راولپنڈی میں آر آئی سی میں دستیاب ہے‘ شفاء پرائیویٹ اسپتال ہے‘ وہاں یہ علاج مہنگا ہوتا ہے جب کہ آر آئی سی میں مریض کا مفت علاج ہو جاتا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’مریض اگر پرائیویٹ علاج کرائے تو کتنا خرچ آتا ہے‘‘ وہ بولے ’’پندرہ سے بیس لاکھ روپے‘‘ میں نے پوچھا اور ’’آر آئی سی میں‘‘ وہ بولے ’’یہ علاج وہاں فری ہے‘‘ مریض جائے اور چند لمحوں میں اس کا علاج شروع ہو جائے گا‘‘ میں نے ہنس کر پوچھا ’’اور
ڈاکٹر شیرازی نے ہنس کر جواب دیا ’’یہ دونوں راولپنڈی کو آر آئی میں نے پوچھا ’’کیا یہ علاج ملک کے دوسرے حصوں میں بھی موجود ہے؟‘‘ ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا ’’یہ تمام بڑے شہروں میں دستیاب ہے‘ آپ لوگوں سے درخواست کریں یہ ان اسپتالوں کا پتہ اور فون نمبرز اپنے پاس رکھیں‘ آپ کے سامنے اگرکسی کو فالج کا اٹیک ہو جائے تو آپ گاڑی اور رشتے داروں کے انتظار کے بجائے مریض کو اٹھائیں اور اسے فوری طور پر اسپتال پہنچا کر اس کا علاج شروع کرا دیں‘ یہ بچ جائے گا لیکن آپ اگر جوتے تلاش کرتے رہے تومریض بے چارہ ہمیشہ کے لیے معذور ہو جائے گا کیوں کہ اڑھائی گھنٹے بعد اس کے دماغ کا وہ پورشن ڈیڈ ہو جائے گا جس کے ذریعے اس کا جسم موومنٹ کرتاہے اور دنیا میں ابھی تک اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا لہٰذا فالج کے فوراً بعد ابتدائی دو اڑھائی گھنٹے اہم ہوتے ہیں‘ یہ ضائع نہیں ہونے چاہییں‘‘۔
💥💥💥