تین محسن صحافی

تحریر : طارق قریشی

اپنی ایک یادداشت بھائی غلام عباس بخاری کی تازہ رحلت کے تناظر میں شیئر کرنا چاہتا ہوں تاکہ سند رہے۔

جس زمانے میں بندہ روزنامہ نیادور کا چیف رپورٹر تھا اس وقت میرا ایک روڈ ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ جس کے نتیجے میں فریکچر دائیں انگوٹھے اور بازو پر ڈاکٹروں نے پلاستر چڑھا دیا تھا۔ چنانچہ بائیک چلانا، بیٹ اور دفتر جانا، خبر لکھنا، بیگم اور بچوں کو سکول کیلئے پک اینڈ ڈراپ کی ڈیوٹی دینا میرے لئے ناممکن ہوگیا تھا ایسے میں میرے تین صحافی ساتھی علام عباس بخاری، نور محمد اور سیف چوہدری مجھ بے بس کی مدد کیلئے آگے آئے۔

سرکاری نوکری کیلئے بیگم کے آنے جانے کا بندوبست تو بذریعہ رکشہ کیا گیا۔ نورمحمد نے میرے تینوں بچوں کو صبح گھر سے لیکر بلسن سکول چھوڑنے، غلام عباس بخاری نے دوپہر کر بچے سکول سے لیکر واپس گھر چھوڑنے کی ڈیوٹی سنبھالی جبکہ سیف چوہدری نے خود مجھے گھر سے لینے، بیٹ، پریس کلب اور دفتر لے جانے اور ڈیوٹی کے بعد واپس گھر چھوڑنے کی ڈیوٹی سنبھالی۔ میں خبر کو زبانی بولتا اور سیف اسے کاغذ پر لکھتا جاتا تھا۔ جن کی کاپیاں کرا کر ہم اپنے اپنے دفاتر میں فائل کرتے تھے۔ یہ عمل چالیس یوم سے زیادہ عرصے تک چلا۔ یوں تین فرشتوں نے میری نوکری بھی بچائی اور میرے بجوں کا تعلیمی سلسلہ بھی ٹوٹنے نہ دیا۔ میرے ان تینوں محسنوں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے کے ماتھے پر کبھی شکن تک نہیں آئی اور بعد میں بھی انہوں نے کبھی جتایا بھی نہیں۔ پہلے نور محمد، پھر سیف چوہدری اور اب عباس بخاری دنیا سے پردہ کر گئے ہیں۔ دعاگو ہوں کہ اللہ ان تینوں کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور ان کے اہل و اعیال پر اپنا خاص کرم فرمائے۔ میں ان تینوں محسن ساتھیوں کا آخری سانس تک مقروض رہوں گا۔ انہیں جزائے خیر عطا ہو۔