اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی سیکریٹری جنرل اسد عمر نے پارٹی عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ پارٹی نہیں چھوڑ رہے بلکہ سیکریٹری جنرل اور کور کمیٹی کے رکن کے عہدوں سے استعفے دے رہے ہیں، یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے کسی دباؤ میں عہدے نہیں چھوڑ رہے۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک خطرناک صورت حال کا شکار ہے اور اس سے اسے سیاسی جماعتیں ہی مذاکرات کے ذریعے نکال سکتی ہیں۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ 9 مئی کو جو ہوا وہ ملک کیلئے بہت خطرناک تھا، اس روز فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے، فوج کی اہمیت کا تجزیہ عمران خان نے سب سے اچھا پیش کیا کہ مسلم ممالک کی طرف نظر دوڑائیں تو کس طریقے کی تباہی پھیلی، اگر پاکستان میں ڈسپلن اور طاقتور فوج نہ ہوتی تو ہمیں شام اور عراق جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا، اس دن جو مناظر دیکھنے کو ملے وہ قابلِ مذمت ہیں ، ان سے باہر تشویشناک پیغام گیا، اس حوالے سے شفاف تحقیقات ہوں ، ملوث لوگوں کو سزا دی جائے، ہزاروں کارکن زیر حراست ہیں، ان میں سے بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو بے گناہ ہیں، ان کو جلد  سے جلد چھوڑنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں پانچ بڑے سٹیک ہولڈرز ہیں۔ عدلیہ میں تقسیم ہے، پاکستان کی فوج  دوسرا سٹیک ہولڈر ہے۔ تیسرا سٹیک ہولڈر تحریک انصاف ہے، یہ  پاکستان کی سب سے بڑی اور قومی پارٹی ہے جس کی بیشتر قیادت اور کارکن جیل میں پڑے ہوئے ہیں۔  پی ڈی ایم ہمارے سیاسی حریف ہیں ، آج الیکشن کرادیے جائیں تو وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی اور سندھ اور بلوچستان میں پی ڈی ایم کی حکومت بنے گی، وفاق میں پی ڈی ایم کی تگڑی اپوزیشن بنے گی۔ ان کی سیاست کا پچھلے 13 مہینے میں بیڑہ غرق ہوگیا ہے۔ پانچواں سٹیک ہولڈر پاکستان کے عوام ہیں ، جنہیں  پچھلے 13 مہینے میں بدترین مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ  اگر سارے سٹیک ہولڈرز میں ہی خرابی ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ کچھ تو مختلف کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت پاکستان 71 سے بھی زیادہ خطرناک صورت حال سے دوچار ہے، ملک کو یہاں سے نکالنا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس اور فوج کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حلے کیے جائیں، پاکستان کے دوست ممالک بھی یہی کہہ رہے ہیں، اگر سبھی مذاکرات کی حمایت کر رہے ہیں تو ہمیں اس کو بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ 9 مئی کے بعد  کی صورت حال میں میرے لیے ذاتی طور پر ممکن نہیں ہے کہ قیادت کی ذمہ داریاں نبھا سکوں، میں کور کمیٹی کی ممبر شپ اور سیکریٹری جنرل کے عہدوں سے مستعفی ہوں گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ انہوں نے صرف عہدوں سے استعفیٰ دیا ہے۔ ان کے اوپر کوئی دباؤ نہیں ہے، یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے، اگر پریشر ہوتا تو پارٹی چھوڑتے لیکن انہوں نے صرف عہدے چھوڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دل سے تحریک انصاف کے کارکنوں، ٹکٹ ہولڈرز کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، جس حب الوطنی سے انہوں نے کام کیا ہے بحیثیت سیکریٹری جنرل ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، پاکستان تحریک انصاف کے کارکن پاکستان کا بہت بڑا اثاثہ ہیں، ان میں سے بہت سے بے گناہ لوگ اس وقت اسیر ہیں، ان کی فی الفور رہائی ہونی چاہیے۔ ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا عمران خان کے غلط فیصلوں سے پارٹی کا یہ حال ہوا ہے؟ اس پر اسد عمر نے کہا کہ تحریک انصاف  کی روح عمران خان تھے، انہوں نے جو فیصلے کیے انہی سے وہ وزیر اعظم اور ملک کے مقبول ترین لیڈر بنے، ان کے غلط فیصلوں کا فیصلہ میں نہیں پاکستان کے عوام کریں گے۔ کیا شیریں مزاری اور فواد چوہدری کو واپس تحریک انصاف میں لانے کی کوشش کریں گے؟ اس سوال کے جواب میں اسد عمر نے کہا کہ یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے، ان کی وجوہات ہوں گی۔