رمضان، مہنگائی اور ہمارے اسلاف کا کردار
رمضان، مہنگائی اور ہمارے اسلاف کا کردار
تحریر سیدساجدعلی شاہ
رمضان المبارک بابرکت ماہ مقدس اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ سایہ افگن ہونے والا ہے اور اپنے دامن میں رحمتیں، برکتیں، سمیٹے ہوئے یہ ماہ مقدس ایک مرتبہ پھر سے ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے
اُمت مسلمہ رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں قدم رکھنے والی ہے رمضان المبارک کا مہینہ آنے کا سن کر نیکیوں کی کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں اور برائیوں کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں گویا عبادتوں کا موسم بہار آ جاتا ہے اور مسلم معاشرے میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ جاتی ہے رمضان المبارک کے مہینے کو سارے مہینوں پر برتری حاصل ہے کہ اس میں بے پناہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور خیروبرکت نازل ہوتی ہیں ، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ، شیاطین قید کردیے جاتے ہیں ، نیکیوں کی توفیق زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتی ہے، مومنین کے رزق میں اضافہ ہوجاتا ہے، نفل کا ثواب فرض کے برابر اورفرض کا ستر فرض کے برابر ہوجاتا ہے، رمضان کا ابتدائی عشرہ رحمت، درمیانی مغفرت اور آخری دوزخ سے خلاصی کا ہے، اس میں ایک رات شب قدر ہے جس میں پوری رات عبادت ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اسی مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا ہے، دن میں روزہ اور رات میں تراویح کا اجتماعی نظام قائم کیا جاتا ہے، اس طرح اس مہینہ کی نورانیت اور تاثیر میں بے انتہاء اضافہ ہوجاتا ہے، ہر مؤمن بندے کو کسی نہ کسی درجے میں اس کا احساس و ادراک ہوتا ہے۔
پاکستان جو ماہ رمضان المبارک میں اسلام کے نام وجود میں آیا اور قرآن وسنت کے عملی نظام کے نفاذ کا اللہ سے عہد کیا گیا تھا۔ لیکن 76 سال کا عرصہ بیت جانے کے باوجود ہم نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ذخیرہ اندوز متحرک ہو رہے ہیں ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہونا شروع ہو چکا ہے۔ روز مرہ کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے کی پوزیشن سنبھال چکی ہیں۔ حکومت جو بھی ہو وہ صرف رمضان پیکیج کا اعلان کر کے یوٹیلیٹی اسٹور ز میں چند اشیاء پر سبسڈی دے کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتی ہے ۔ہر رمضان میں انتظامیہ عوام کو مہنگائی کے سیلاب سے بچانے کے دعوے تو کرتی ہے مگر گراں فروشی اور مہنگائی پھر بھی کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہے۔ دکاندار، تاجر اور خوردہ فروش شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور حکومت مہنگائی کے جن کو قابو نہیں کر پاتی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ ’’جو شخص دھوکا دے، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ہمارے اسلاف میں سے مسلمان تاجروں کی مثالیں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ حفص بن غیاث نامی شخص امام ابوحنیفہ کے کاروباری پارٹنر تھے ایک دفعہ امام ابوحنیفہ نے اُسے سامانِ تجارت دے کر فروخت کے لیے باہر بھیجا اور ایک چیز کے بارے میں اُسے وضاحت کی کہ اس میں عیب ہے لہٰذا خریدار کو اس کا عیب بتا کر فروخت کرنا لیکن تاکید کے باوجود حفص بن غیاث یہ بات بھول گئے اور خریدار کو عیب بتائے بغیر وہ چیز فروخت کردی بعد میں امام ابوحنیفہ کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے حفص بن غیاث سے خریدار کا اتا پتا پوچھا،لیکن اُسے یاد نہ تھا۔ اس پر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس کو اپنے کاروبار سے الگ کردیا اور سارے سامانِ تجارت کی قیمت فروخت کی، رقم جو تین ہزار دینار بنتی تھی صدقہ کردی، تاکہ مشتبہ مال سے بچا جاسکے۔اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غلے کے ایک ڈھیر سے گزر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ غلے کے اندر ڈالا تو اندر سے گیلا محسوس ہوا،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وجہ پوچھی، تو مالک نے کہا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! بارش کے پانی سے کچھ غلہ گیلا ہوگیاہے مَیں نے قصداً نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں چاہیے تھا کہ تر غلہ اوپر رکھتے، تاکہ لوگ اسے دیکھ سکیں اور دھوکا نہ کھاسکیں یاد رکھو ’’دھوکا دینے والا ہم میں سے نہیں۔‘‘ایک بار مدینے میں سخت قحط کا سماں تھا لوگ دانے دانے کو ترس رہے تھے۔ انہی دنوں دامادِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت عثمانؓ کے ایک سو تجارتی اونٹ مدینے پہنچے۔ تاجروں نے کئی گنا منافع پر خرید نے کی پیشکش کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھاری منافع کو ٹھکرایا اور تمام غلہ خدا کی راہ میں ضرورت مندوں میں تقسیم کردیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’دیانت دار تاجر بروزِ قیامت صدیقین اور شہدا کی صف میں کھڑا ہوگا۔‘‘ حضرت یونس بن عبیدؒ چادریں بیچتے تھے جب مطلع ابر آلود ہوتا تو گاہکوں کو رخصت کرکے دکان بند کردیتے کسی نے وجہ پوچھی تو کہتے کہ ابر آلود مطلع میں فضا صاف نہیں ہوتی ممکن ہے کوئی عیب دار چیز بیچوں اور گناہ گار ہوجاؤں
قارئین! مذکورہ بالا پاکیزہ تجارت اور اسلامی مَعاشی اَقْدار کی جو خوبصورت تصویرپیش کی گئی ہےاس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے اسلاف کا اندازِ تجارت اور طرزِ معیشت کس قدر اعلیٰ تھا۔اسلامی تاریخ کے صفحات ایسے باکردار لوگوں کے واقعات سے بھرے ہوئے ہیں جو نہ صرف اپنے ذاتی مُعاملات بلکہ تجارتی مصروفیات میں بھی صدق و امانت ، عدل و انصاف تقویٰ و احسان ، ایثار و بھلائی اور مسلمانوں کی خیر خواہی کو اپناتے ہوئے اسلام کے مَعاشی اصولوں پر کاربند رہے شاید اسی وجہ سے ان کے دور کی مَعاشی خوشحالی اپنی مثال آپ تھی ، مگر افسوس!جیسے جیسے ان خوبیوں کی جگہ ظلم و جبر ، فسق و فجور ، ناانصافی ، جھوٹ ، فریب دہی ، مَفادپرستی ، سُود خوری اور بدخواہی جیسی بُرائیاں مُسلمانوں کے کردار میں پیدا ہوتیجا رہی ہیں ان کی مَعِیْشت دن بدن زوال پذیر ہوتی جارہی ہے اور بالآخر تباہی کے اندھے کنویں میں جاپڑی ہے، اگر آج بھی ہم قرآن و حدیث میں بیان کردہ حُصُولِ رزق کےزریں اصولوں پر عمل کریں اور کسب وتجارت کے مُعاملے میں اپنے اسلاف کا طرزِعمل اختیار کریں تو اپنی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ پورے مُعاشرے میں ایک شاندار خوشحالی لا سکتے ہیں اور مَعِیْشت کو ایک بار پھر عروج و اِسْتِحکام نصیب ہوسکتا ہے