“آئیے ویلنٹائن ڈے منائیں “

تحریر۔بہادر جنجوعہ۔لندن

مرمر کی سی سلوں سے مزین میانوالی کے جی پی آفس سے دو چار ماہ کے وقفے سے ابا حضور پنشن لینے کیلئے جس شان سے جاتے تو واپسی بھی اسی طمطراق سے ہوتی تھی ۔ ڈاکخانے کے کاونٹر سے رقم وصول ہوتے ہی اماں کی طرف سے تھمائی گئی پرچی کی تعمیل کے راستے میں پڑتے رائل اسلحہ ہاوس کی دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے تھوڑی دیر رک کر اپنے شو کیس میں لگی رائفلز کے نظارے سے اندر کے فوجی کی دل پشوری کا اہتمام کرنے کے بعد ریلوے سٹیشن کی راہ لیتے جہاں کے بک سٹال سے ان دنوں ہر قسم کی الا بلا کیساتھ اخبارات و رسائل بھی مل جایا کرتے تھے ۔ یہاں سے میرے لئے خصوصی طور پر تعلیم و تربیت کے گزشتہ تین چار شمارے پکڑتے ، اماں کی تھمائی پرچی کو پڑھ کر اس پر درج احکامات کی تھیلے میں موجودگی کا یقین کرلینے کے بعد سرگودہا کو جاتی بس پکڑ لیتے ۔ گھر پہنچتے ہی ہم ابا کو گھیر لیتے ۔ ہاتھ میں پکڑے کپڑے کے بڑے سے تھیلے کی مجھ سے جان چھڑانے کیلئے اس میں سنبھالے تعلیم و تربیت کے شمارے میرے حوالے کرتے ۔ یہ متاع حیات ہاتھ آتے ہی قریب ترین پڑی منجی پر میں ڈھیر ہوجاتا ۔ آخری شمارے کی آخری سطر پڑھنے کے بعد منجی کو میرے وجود سے آزادی نصیب ہوتی ۔ اسوقت سے پڑے اپنے مطالعہ کے چسکا کو ساتھ لیکر ہائی سکول چلا گیا ۔ وہاں کلاس انچارج حافظ ممتاز صاحب کی خوشنودی اور قربت کی خاطر میں حیلے بہانے سے تعلیم و تربیت اور دوسرے کچھ رسائل میں پڑھی کوئی نہ کوئی کہانی انکے گوش گزار کرنے لگا ۔ میرے شوق کو دیکھتے ہوئے ایک دن انہوں نے لاہور سے نکلتا ماہنامہ کوثر کا ایک شمارہ مجھے دیا تو تفریح کے وقفہ میں پڑھ کر میں نے انہیں واپس کردیا ۔ استاد مکرم بھی استاد تھے اگلے دن میرے لئے اس ماہنامہ کے چوبیس شمارے لے آئے ۔ ساتھ ہی ابا حضور کو کہہ کر لاہور سے بذریعہ ڈاک اسکی مستقل ترسیل کا اہتمام بھی فرما دیا ۔ ثانی الذکر کا مواد اول الزکر سے مختلف تھا ۔ یہ خالص مذہبی مواد پر مشتمل میری عمر کے لوگوں کیلئے قدرے خشک مزاج کا رسالہ تھا جس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں اصلاحی مضامین ہوا کرتے تھے ۔
ہائی سکول کے زمانے سے قبل6 پرائمری کے ابتدائی دنوں میں ابا حضور حج پر تشریف لے گئے تھے ۔ اللہ کے حضور میں اس عظیم عبادت کی مقبولیت میں جو عوامل ممد ومعاون تھے سو تھے ہی مگر حاجی کے اہل و عیال و اہل محلہ کے ہاں حج مقبول6 کی سب سے بڑی علامت حجاز مقدس سے لایا گیا ٹی وی ہوا کرتا تھا ۔ واپسی پر والد گرامی بھی حج کی قبولیت کی نشانی ساتھ لائے ۔ کعبہ کی نگری سے آیا ٹی وی اب میری زندگی کا قبلہ و کعبہ تھا ۔ اس سے نشر ہوتے ڈراموں کے نام ، وقت ، دن اور گزشتہ قسط کے ڈائیلاگ مجھے ازبر ہوتے ۔ یہ سلسلہ اسوقت تک چلتا رہا جب تک کہ میری زندگی میں ماہنامہ کوثر نہ آیا تھا ۔ جیسے جیسے اس رسالہ کا علمی شعور میری عقل کی رگوں میں اترتا گیا مجھے ٹی وی سے نفرت سی ہونے لگی کیونکہ ٹی وی معاشرے میں بے حیائی پھیلانے اور ہمارے اندر سے دینی حمیت ختم کرنے کیلئے یہود و نصاری کی اک شاطرانہ چال تھی ۔ جلتی پہ تیل کا کام جماعت اسلامی کے کسی ہمنوا کے ایک مضمون نے کیا جس کیمطابق ٹی وی توڑو تحریک ہی وہ واحد راستہ تھ جس پر چل کر ہم اپنی بیٹیوں کو بے دینی کے جھکڑ سے اڑتی گرد سے بچا سکتے تھے ۔ ٹی وی توڑنا تو میرے بس میں نہ تھا مگر ابا حضور کی غیر موجودگی میں ٹی وی کے سامنے بیٹھی اپنی اکلوتی چھوٹی بہن کو اسکے سامنے سے اٹھانے پر میں قادر ضرور تھا ۔ چھوٹی ہونے کیوجہ سے بہن کی مارکٹائی کا حق بھی مجھے حاصل تھا جو اس مقصد کے حصول کیلئے ایک آدھ بار استعمال بھی کرڈالا ۔ بڑھتی عمر کیساتھ زیر مطالعہ مواد کی ضخامت بھی بڑھتی گئی ۔ جس نے مجھے کچھ عجیب قسم کے تذبذب میں ڈال دیا ۔ ٹی وی کی بطور شیطانی ایجاد کا تو میں قائل تھا مگر بجلی جسے ہم سب نعمت خداوندی مانتے تھے اہل مذہب کے ہاں اس پر بھی جوتیوں میں دال بٹی تھی ۔ اسکے علاوہ لاوڈ سپیکر جو آج مسجد میں دیوار و در سے بھی کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس کے استعمال پر بھی اک حشر بپا ہوا تھا ۔ اس سے بھی پہلے خلافت عثمانیہ میں پرنٹنگ پریس کا رستہ بھی اسی انداز میں روکا گیا ۔ میری عمر کیساتھ ایک سوال بھی بڑا ہوگیا تھا کہ یہ نہیں کہ ان ایجادات کے آگے بند کیوں باندھے گئے بلکہ جو دھول اڑائی گئی اس سے حاصل کیا ہوا ؟ اب میں سوچنے کے قابل بھی ہوگیا تھا ۔ میری سوچ نے مجھے جو جواب دیا اسکے لئے مختصر مگر جامع الفاظ یہ تھے کہ ہم نے اپنا تھوکا چاٹا۔
آج دیکھتا ہوں کہ شیطانی ایجاد ٹی وی گھروں سے نکل کر جیب میں آگیا اور وہ لوگ جو اسکو توڑنے کی تحریکیں چلایا کرتے تھے اب اسی پر اپنے چینل چلا رہے ہیں ۔ ہم ماضی کی کسی بھی کھڑکی کو کھول کر6 زیادہ دور نہیں فقط چند عشرے پیچھے کی طرف دیکھیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہر معاملے پر بطور قوم ہم نے سوچنے سمجھنے کی بجائے ہڑبونگ مچایا ۔ وقت کے تقاضوں کو کیسے نبھانا ہے بطور قوم یہ بات ہماری پلاننگ کا کبھی حصہ رہی ہی نہیں ۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے ہاں سوچ پال رکھی ہے کہ انکی تہذیب عین اسلامی تہذیب ہے ۔ اسکے توسط سے اذہان میں یہ ذہر بھی انڈیل رکھا ہے کہ تہذیب کے پیرائے میں سوائے انکے پوری دنیا غلط ہی نہیں بلکہ انکی خود ساختہ اسلامی تہذیب کے درپے بھی ہے ۔ اپنی اسی سوچ کی بنیاد پر ہم دنیا کے خلاف ڈانگ اٹھائے پھرتے ہیں ۔ یہی وطیرہ ہم نے ویلنٹائن ڈے کے ضمن میں اپنا رکھا ہے مگر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح ٹی وی کی ترقی یافتہ شکل موبائل کی شکل میں آج ہماری زندگی کا جزو لازم ہے اسی طرح یہ ویلنٹائن ڈے بھی مستقبل میں ہماری زندگی کا حصہ بن کر رہیگا ۔ ہمیں اپنے آپکو اسکے لئے تیار کرنا چاہئے۔ بجائے اسکے کہ ہمارے بچے پارکوں میں چھپ چھپ کر ایک دوسرے کو پھول دیتے پھریں کیوں نہ ہم اس دن کو نکاح اور منگنی کیلئے مخصوص کرتے ہوئے آگے بڑھ کر اس دن کو اپنی تہذیب کا چولا پہنا کر دنیا کیساتھ شامل ہو جائیں ۔ اس دن کے حوالے سے عالمی میڈیا پر ہمارے شہروں کی جو پکڑ دھکڑ اور چوروں کیطرح بھاگم بھاگ کا نقشہ پیش کیا جاتا ہے اسے ہم خوشی کے نغموں ، شادی کے گیتوں اور تہذیبی اجتماع کا رنگ دیکر دنیا کا سامنے بھیانک کی بجائے اپنا خوبصورت چہرہ پیش کرسکتے ہیں ۔ زخیرہ احادیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اپنی بیویوں کیساتھ حسن سلوک کی بہت ہی باکمال مثالیں ہمیں ملتی ہیں جس پر ہماری مقامی تہذیبی روایات نے گرد ڈال دی ہے ۔ آئیے اس دن کی مناسبت سے خوانگی زندگی سے متعلق بھولی بسری سنتوں کو پھر سے زندہ کریں ۔ اس دن ہم اپنی شریک حیات کو باہر ڈنر پر لے کے جائیں ۔ اسے کسی اچھے تھیٹر پروگرام میں لے جائیں ۔ ہم اسکیلئے ضروریات زندگی کی شاپنگ کیلئے اس دن کو مخصوص کرلیں ۔ ہم اس دن ایک ہی کپ میں چائے پیئیں اور ایک ہی گلاس میں پانی ۔ کہا جاتا ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو پانی لانے کا حکم فرماتے ۔ پانی آتا تو آپ اپنی زوجہ کو اس سے ایک گھونٹ پلاتے اور پھر کٹورے کا وہ مقام جہاں سے انہوں نے پانی پیا ہوتا آپ انہیں دکھا کر اپنے لب مبارک عین اسی جگہ لگا کر پانی نوش فرماتے ۔ آئیے اس ویلنٹائن ڈے پر ہم یہ سنت زندہ کرکے اپنا ویلنٹائن ڈے منائیں ۔۔۔۔۔۔ آئیے ویلنٹائن ڈے منائیں