پیپلز پارٹی پر عمران خان کی تنقید کیوں ؟
پیپلز پارٹی پر عمران خان کی تنقید کیوں ؟
تحریر: ( طارق قریشی )
سابق وزیراعظم عمران خان، تحریک انصاف اور انکے اتحادیوں کی جانب سے تسلسل کے ساتھ پیپلز پارٹی، سابق صدر آصف زرداری اور پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کو حیلوں بہانوں سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس نے تجزیہ کاروں اور سنجیدہ حلقوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے مقابلے پر پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کو نشانے پر کیوں رکھا جا رہا ہے۔ اس سیاسی حکمت عملی کے پیچھے منطق اور وجہ کیا ہے۔ یہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ یہ تحریک کی ایک سوچی سمجھی پالیسی ہے جس کے تحت یہ تنقید کی جارہی ہے جس کی پاداش میں شیخ رشید آجکل زیر عتاب ہیں اور بھی کئی چہرے پائپ لائن میں ہیں۔ ایک امکان تو یہ ہو سکتا ہےکہ کسی دبائو پر عمران خان نے مسلم لیگ کی حکومت پر ہلکا ہاتھ رکھنے کا فیصلہ کیا ہو۔ یہ امکان بھی ہو سکتا ہے کہ کراچی و ملتان کے ضمنی اور سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ہاتھوں شکست نے پی ٹی آئی کو یہ حکمت عملی اپنانے پر مجبور کیا ہو۔ بلاول بھٹو کے لانگ مارچ کے فوری بعد گزشتہ سال اپنی حکومت کے خاتمے اور تحریک عدم اعتماد میں آصف زرداری کے بنیادی کردار نے اپنا اصل حریف پیپلز پارٹی کو ماننے پر مجبور کیا ہو۔اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پیپلز پارٹی کے اچھے تعلقات بھی ایک وجہ ہو سکتے ہیں۔ یا پھر کسی اندرونی حلقے نے عمران خان کو بتا دیا ہو کہ اگلے سیاسی سیٹ اپ میں پیپلز پارٹی کو اہم کردار دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تب ہی پیپلز پارٹی کے خلاف فاسٹ بائولنگ شروع کی گئی ہو۔ وجہ چاہے جو کوئی ہو عمران خان کی تنقید سے پیپلز پارٹی کے نمبر بڑھ گئے ہیں اور اس کے تن مردہ میں نئی جان پڑ گئی ہے۔ پاکستان کے سیاسی حلقے اور وقت کی رفتار سے سیاسی قبلہ چننے والے سیانے سیاستدانوں کو تحریک انصاف کی تنقید سے مستقبل بارے واضح سگنل مل گیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں نیا سیاسی و انتخابی منظر نظر آئے۔ پی ٹی آئی ملک کی ایک بڑی اور سابق حکمران جماعت ہے مگر اسے اس کے ہی غلط فیصلوں نے موجودہ مقام پر پہنچایا ہے۔ پیپلز پارٹی پر تنقید اور اس کے جواب میں سخت جوابی اقدامات نے ایک بار پھر تحریک انصاف کو سیاسی بصیرت سے محروم جماعت ثابت کیا ہے۔