مسئلہ فلسطین علامہ اقبال کی نظر میں

تحریر ۔۔۔ثمر نواز سعیدی
یوں تو آزادی ہر قوم کا بنیادی حق ہے ہر قوم کو دوسری اقوام کی بالادستی اور کسی بھی دباؤ کے بغیر آزادانہ طور پر اپنے علاقے میں اپنا نظام حکومت چلانے کی مکمل آزادی ہے قدیم و جدید قوانین کے مطابق کسی بھی ریاست کے باسیوں کو مذہبی ، سیاسی ،معاشی اور سماجی طرز پر اپنی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے دنیا میں کچھ ایسی اقوام بھی موجود ہیں جو کئی دہائیوں سے نسل در نسل ظالموں غاصبوں کا ظلم سہتے ہوئے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن کا لہو پانی کی طرح بہایا جاتا ہے جن کے جوانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کر دیا جاتا ہے اور جن کی عورتوں کو آبرو ریزی معمول بن چکا ہے۔
آج ارض فلسطین میں بسنے والی ایک ایسی ہی بےبس و مجبور مگر جذبہ جہاد سے معمور قوم کی بارے میں حکیم الامت، شاعر مشرق مصور پاکستان علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے نظریات و جذبات سے پردہ اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں ۔
یہ حقیقت ہے کہ علامہ اقبال نہ صرف شاعر مشرق مصور پاکستان تھے بلکہ وہ عظیم مفکر و مدبر اور دور اندیشی کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے لیے دھڑکنے والا دل بھی رکھتے تھے جو شاید بعد میں کسی بھی قومی رہنما کو میسر نہ ہو سکا ۔
علامہ اقبال عالمی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم دوئم کے بعد جب برٹش اور فرانسیسی حکمرانوں نے اپنے منصوبے کے تحت صیہونیوں کو مسلمانوں کی زمین (فلسطین) میں بسنے کے لیے جگہ دی تو علامہ صاحب کی دور رس نگاہوں نے اس سے پیدا ہونے والے عالمی فتنوں اور فساد کو بھانپ لیا تھا جنگ عظیم دوئم کے بعد چونکہ سلطنت عثمانیہ شکست خوردہ ہو کر ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی جس کے نتیجے میں ارض فلسطین کا علاقہ برطانیہ کے زیرِ انتظام آ گیا تھا جبکہ برٹش گورنمنٹ اور صیہونیوں کے درمیان معاہدہ بالفور پہلے ہی ہوچکا تھا جس کے مطابق برٹش گورنمنٹ نے صیہونیوں کو مسلمانوں کی زمین فلسطین پر آباد کرنا تھا سو برٹش گورنمنٹ نے ایسا ہی کیا اور ارض فلسطین پر ایک ایسی جنگ شروع ہو گئی جو فلسطینی مسلمانوں کی چار نسلوں کو کھا بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ۔
1929ء میں لاہور میں مسئلہ فلسطین پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت علامہ اقبال مرحوم نے کی ۔ صدراتی خطبہ دیتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا !!!
یہودیوں کی سفاکیت کی مذمت کی اور یہودیوں کو یاد دلایا کہ ہیکلِ سلیمانی جو تباہ ہو چکا تھا اس کی دریافت امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے ہی کی تھی اور یہ ان کا یہودیوں پر احسان تھا کہ یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کو مسلمانوں نے نہ صرف پناہ دی بلکہ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز کیا ۔مگر اہلِ یہود کی احسان فراموشی ہے کہ آج یہودی فلسطین میں مسلمان عورتوں بچوں تک کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کر رہے ہیں اور انہیں ان کے آبائی وطن سے بے دخل کر رہے ہیں۔
1931ء میں علامہ صاحب نے انگلستان کا دورہ کیا اور وہاں بھی علامہ صاحب نے کھل کر فلسطینی مسلمانوں کی حمایت کی اور انگریزوں سے مطالبہ کیا کہ معاہدہ بالفور کو فوراً منسوخ کر دینا چاہیے 1931 ء میں ہی معتمر اسلامی کانفرنس میں شرکت کے لیے علامہ صاحب فلسطین پہنچے اس عالمی اسلامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ صاحب نے کہا اسلام کو الحاد مادی اور وطنی قومیت سے خطرہ ہے میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ دل سے مسلمان بنیں مجھے اسلام دشمنوں سے کوئی اندیشہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں سے خدشہ ہے ۔
علامہ صاحب نے جس خدشے کا اظہار کیا تھا آج مسلم حکمرانوں کی صورت میں عملی طور پر پورا ہو چکا ہے دُنیا کی اکلوتی ایٹمی طاقت کی حامل ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی مذمت سے زیادہ کچھ نہیں کر پا رہی باقیوں سے کیا شکوہ کریں۔
بہرحال علامہ صاحب نے اس عالمی کانفرنس میں عظیم مسلم رہنما کے طور پر جہاں یہودیوں اور صلیبوں کے منصوبوں سے پردہ اٹھایا وہیں انہوں نے مسلم حکمرانوں کی نا اہلیوں کے بارے میں بھی واضح کر دیا افسوس کہ ہماری نوجوان نسل نے اقبال کو پڑھنا ہی چھوڑ دیا ہے
یہودی ارض فلسطین کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس کی تشہیر بھی خوب کرتے ہیں جب علامہ صاحب کو یہودیوں کے اس باطل نظریے کی خبر ہوئی تو علامہ صاحب نے فی البدیہ کہا
√ ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

ضرب کلیم میں فلسطینی عرب کے عنوان سے ایک نظم میں علامہ صاحب کہتے ہیں
✓ زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے

تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے

سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے

آج فلسطین میں حق و باطل کا معرکہ جاری ہے جس میں وہی روح کار فرما ہے جو ہمیں علامہ صاحب کی شاعری میں نظر آتی ہے فلسطین کی مزاحمتی تنظیم: حماس: جذبہ جہاد سے سر شار ہو کر قبلہ اول کی حفاظت کے لیے بر سرِ پیکار ہے مسلم حکمران خاموش تماشائی بن کر اہل کوفہ کا کردار ادا کر رہے ہیں عالمی برادری بالخصوص اہل مغرب جو جانوروں کے حقوق پر گھنٹوں کانفرنسز کرتے رہتے ہیں کسی کو بھی اہل غزہ کی چیخیں سنائی نہیں دے رہیں کسی کو بھی فلسطین کی مقدس زمین پر پانی کی طرح بہتا لہو نظر نہیں آ رہا اقوام متحدہ کی حیثیت تو ویسے ہی مردہ گھوڑے سے زیادہ نہیں رہی سلامتی کونسل بھی صرف کافروں کی سلامتی کے لیے رہ گئی ہے انسان اتنا کبھی نہیں گرا جتنا آج گر چکا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کو بالآخر کامیابی ملے گی اور فلسطینی عوام کو آزادی کا سورج دیکھنا ضرور نصیب ہو گا
بقول اقبال :::
✓ شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے